یہ بات ہر اس شخص پر واضح و ظاہر ہے
جو ذرا بھی عقل و شعور رکھتا ہو اور دانش و بینش کا حامل ہو کہ تعلیم،
انسانی ضروریات میں سے ایک اہم ترین ضرورت اورروحانی
فضائل میں سے ایک بلند ترین فضیلت ہے۔ علم و تعلیم
ہی وہ جوہر لازوال ہے، جس کے سامنے فرشتوں کو سرنگوں ہونا پڑا اورجس کی
بنا پر انسان مسجودِ ملائک بنا اور یہی وہ وصف خصوصی ہے کہ
شرافتِ انسانی اور کرامتِ انسانی جس پر مرتب ہوتی ہے۔ یہ
وہ باتیں ہیں جن میں دورائیں نہیں ہوسکتیں۔
علم کی تعریف و مقصد
مگر یہاں یہ بھی یادرکھنا
چاہئے کہ علم وہی ہے جس سے انسان کو انسانیت کا سبق ملے، اخلاق فاضلہ
میں رسوخ حاصل ہو، تہذیب و شرافت پروان چڑھے اوراس کے ساتھ وہ حق و
باطل میں تمیز، مغزوپوست میں فرق، اور صلاح و فسادمیں امتیاز
کرنے کی صلاحیت بخشتا ہو، اور انسان کو صراط مستقیم پر گامزن
کرتا ہو اور رضائے الٰہی اور قرب خداوندی کی دولت سے مالا
مال کرتا ہو، اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ سائنس و ٹکنولوجی
(Science & Tecnology) کے علوم ہوں یا
طب و انجینئری کے فنون ہوں، تاریخ و فلسفہ کے اسباق ہوں، یا
زبان وادب کے دروس ہوں۔ اگر یہ تمام علوم و فنون انسان کو اس مقصد تک
پہنچاتے ہیں جو ابھی مذکور ہوا، تو بلاشبہ یہ علوم و فنون ہیں
اور اگر اس مقصد تک نہیں پہنچاتے تو یہ سب ایک شعبہٴ جنون
ہے۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:
جوہر
میں ہو لاالٰہ تو کیا خوف تعلیم
ہو گو فرنگیانہ
تعلیم اور ہمارے اسلاف
چنانچہ جس دور میں یہ تمام
علوم وفنون اہل اسلام کے ہاتھوں پروان چڑھ رہے تھے، ان علوم وفنون سے انسان کو
انسانیت کا سبق، شرافت کا درس، اخلاق فاضلہ میں رسوخ، حق و باطل میں
تمیز و پہچان کی صلاحیت، بھرپور طریقے پر حاصل ہوتی
رہی اور انسان ہدایت کی شاہراہ پر گامزن اور صراط مستقیم
پر قائم تھا، سائنس کا ہر سبق اس کے لئے وجود خداوندی اور توحیدِباری
کا سبق تھا، ٹکنولوجی کے فنون اس کیلئے قدرتِ خداوندی پر یقین
کا باعث بن جاتے تھے، تاریخ کے واقعات اور قوموں کے عروج و زوال کی
داستانیں اس کیلئے عبرت و موعظت کے اسباق قرار پاتے تھے اور وہ ان سے
ہدایت حاصل کرنے پر مجبور ہوجاتا تھا۔ غرض یہ کہ یہ تمام
علوم و فنون اس کی رہنمائی کرتے تھے اور وہ رضائے الٰہی و
قرب خداوندی کی دولت سے مالامال ہوجاتا تھا۔
زوالِ اسپین کے بعد
مگراسپین کے زوال کے بعد جب یہ
تمام علوم وفنون (جن کو ہمارے اسلاف نے ایمانی فراست اور روحانی
حرارت کے ذریعہ پروان چڑھایا تھا اور ان علوم وفنون سے انسانیت
کی خدمت لیتے رہے) الحاد و دہریت کے شکار لوگوں، خدا و رسول کے
باغیوں، انسانیت و شرافت سے محروم لوگوں، حرص و ہوس کے پجاریوں
کے ظالمانہ و مجرمانہ پنجے اور قبضے میں چلے گئے، تو ان علوم وفنون کو ان کے
اصل مقصد منشاء کے خلاف استعمال کیا جانے لگا اور اپنے ذاتی مفادات کیلئے
انکا کھلے طور پر استحصال کیا جانے لگا۔ اور یہ ملحدوزندیق
اور اہل حرص و ہوا لوگ اپنی مکاری و عیاری، چالاکی
و چالبازی سے شعبہٴ تعلیم پرچھاتے ہی چلے گئے، یہاں
تک کہ ان علوم و فنون کو انھوں نے خدا اور رسولوں سے بغاوت، مذہب و ایمان سے
عداوت، انسانیت و تہذیب سے تلعب و استہزاء اور اخلاقی اقدار کی
تحقیر و توہین کیلئے استعمال کرنا شروع کردیا۔
اور آج کے دور میں علم و تعلیم
نام ہی اس بات کا ہے کہ مذہب و ایمان کو فضول اور بیکار چیز
سمجھا جائے، اخلاقی اقدار جیسے شرم و حیاء، تواضع و انکساری،
احسان و سلوک وغیرہ کو عجز و کمزوری پر محمول کیا جائے اور
انسانی اقدار کو دقیانوسی ٹھہرایاجائے اور اس کے برعکس ہر
بے حیائی اور بے شرمی کو تعلیم کا لازمہ اورہر بے ایمانی
اور بداعتقادی کو عقل و شعور کا نتیجہ اورہر بداخلاقی و بدتہذیبی
کو روشن خیالی کا اثر قرار دیا جائے۔
موجودہ تعلیم کے خطرناک نتائج
یہ افسوس ناک صورت حال جن خطرناک و
تباہ کن نتائج پر منتج ہوئی، اور برابر ہورہی ہے، وہ آج ہمارے سامنے
ہے جن کا خلاصہ درج ذیل ان نمبرات میں پیش کیا جاسکتا
ہے۔
(۱) ہمارے بچے جب ان اسکولوں میں
جاتے اور وہاں کے نظام و نصاب کے مطابق تعلیم حاصل کرتے ہیں، تو ان کے
دلوں سے ایمان واسلام بلکہ مذہب کی عظمت واہمیت یکسر ختم
ہوجاتی ہے اور وہ اس کو محض ایک فضول چیز سمجھنے لگتے ہیں۔
(۲) اور جو لوگ کچھ مذہبی قسم
کے ہیں، انھوں نے اس تعلیم کا یہ اثر قبول کیا کہ دین
و دنیا کو دو خانوں میں بانٹ دیا اور مذہب و دین کو زندگی
کا پرائیویٹ معاملہ کہہ کر اس کو مدارس و مساجد اور نماز روزہ تک ہی
محدود ومقید کردیا اور زندگی کے دیگر مراحل ومواقع میں
پوری طرح اسلام سے آزاد ہوگئے، حالانکہ یہ ذہنیت خالص عیسائی
اور یہودی ذہنیت ہے۔
(۳) بہت سے تعلیم یافتہ
لوگوں میں اسلام کے بنیادی عقائد اور بہت سے احکام کے بارے میں
شکوک و شبہات پیدا ہوگئے اور وہ بے اطمینانی و بے اعتمادی
کا شکار ہوگئے، پھر ان میں جو بزدل ہیں، وہ تو دل ہی دل میں
ان شکوک و شبہات کو لئے پھر رہے ہیں اور جو جری ہیں وہ برملا
اسلام پر حملہ کرتے رہتے ہیں، چنانچہ اخبارات وجرائد کے کالم اس قسم کے
لوگوں کا پتہ دیتے رہتے ہیں۔
(۴) عفت و عصمت، پاکیزگی
وپاک دامنی کی کوئی فضیلت و اہمیت دلوں میں
باقی نہ رہی بلکہ عفت وعصمت کی قدروں کو پامال کرنا، ایک
فیشن بن گیا اور جو شرم و حیاء اور عصمت کی بات کرے وہ ان
لوگوں کی نظر میں دقیانوسی اورحالات زمانہ سے بے بہرہ اور
تاریک خیال ٹھہرایاگیا۔
(۵) اخلاق و شرافت، تہذیب و
انسانیت کی جگہ حیوانیت و درندگی اور شیطانیت
نے لے لی، اور انسانیت و اخلاق کی توہین کرنا، ایک
محبوب مشغلہ بن گیا، اب یہ لوگ کھڑے ہوکر پیشاب کریں تو
روشن خیالی، کوئی بیٹھ کر پیشاب کرے تو دقیانوسی،
یہ لوگ کھڑے ہوکر کھائیں، آدھا کھانا گررہا ہو اور بدتہذیبی
کا مظاہرہ ہورہا ہو، تو عین روشن دماغی ہے اور کوئی مولوی
ان کو بتائے کہ ادب و سلیقہ سے دسترخوان پر بیٹھ کر انسان بن کر نوش
فرمائیں، تو یہ مولوی تاریک خیال؛ پھر اس کی
تاریک خیالی کے چرچے، ان روشن دماغوں کے فرائضِ تبلیغ میں
داخل، تاکہ کوئی مولوی جیسا تاریک خیال دنیا
میں باقی نہ رہے۔
(۶) چونکہ اس تعلیم کا مقصد،
محض تن پروری و تن آسانی، عیش پرستی ہی دماغوں میں
بٹھایا جاتا ہے، اس لئے ہر تعلیم یافتہ حرص و ہوس کا غلام بن کر
آتا ہے اور مال و دولت کے جمع کرنے میں اندھا، بہرا ہوکر لگ جاتا ہے؛ نہ
حلال و حرام کی تمیز سے اس کو کوئی دلچسپی ہوتی ہے؛
اور نہ انسانی ہمدردی و غمخواری سے کوئی واسطہ۔
ڈاکٹر ہو تو بیماروں سے جتنا اور جس طرح ہڑپ کرسکتا ہے، وہ کریگا؛ اس
کو بیمار کی شفایابی و علاج سے زیادہ اپنی جیب
اور اپنے پیٹ کی فکر ہوگی۔ اسی طرح شادی کے
موقعہ پر لڑکی والوں سے بٹورنے کی ہر تعلیم یافتہ کو فکرلگی
رہتی ہے کیونکہ اس نے ڈاکٹر وانجینئروغیرہ بننے کیلئے
لاکھوں روپیہ خرچ کیا تھا؛ اور وہاں دیا تھا، تو اب یہاں
لینے کی فکر ہوتی ہے۔
(۷) اس تعلیم سے مقصد ہی
عیش و آرام اور مال و دولت ہے، تو غریبوں سے نفرت اور حقارت کے ناپاک
جذبات بھی اس طبقہ میں لازمی طور پر پیدا ہوجاتے ہیں،
اس لئے یہ طبقہ اپنی سوسائٹی ہی الگ بناتا ہے، حتیٰ
کہ اکثر ان میں ایسے ہیں جو مساجد میں آنا اپنی شان
کے خلاف سمجھتے ہیں؛ کیونکہ مساجد میں غریب طبقہ ہی
زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ طبقہ علماء کی خدمت میں
جانے اور ان کے مواعظ وغیرہ سننے سے بھی دور رہتا ہے، کیونکہ
علماء کاطبقہ بھی عام طور پر غریب و مسکین اور سادہ سیدھا
ہوتا ہے۔ نیز ان کے گھر کی شادیوں اور تقریبات میں
بھی صرف کاروں اور بنگلوں والے اور سوٹ بوٹ میں ملبوس لوگ ہی
بلائے جاتے ہیں، وہ غریبوں کو بلانے میں اپنی شان کی
توہین سمجھتے ہیں۔
یہ چند موٹی موٹی اور
بالکل ظاہر و واضح خرابیاں اور برائیاں ہیں، جو آج کی تعلیم
سے تعلیم یافتہ طبقے اور پڑھنے والے بچوں میں پیدا ہوتی
ہیں، ان میں سے بعض تو ایسی ہیں جن سے ایمان
ہی رخصت ہوجاتا ہے، اور بعض وہ ہیں جو اسلام کی تعلیم کے
خلاف ہونے کی وجہ سے سخت گناہ اور معصیت ہیں۔
عیسائی مشنری اسکول زیادہ خطرناک
یہ تو عصری تعلیم گاہوں
اور وہاں کے نظام پر ایک عمومی تبصرہ ہے؛ لیکن اگر عیسائی
مشنری تعلیم گاہوں پر خصوصیت سے نظر کی جائے تواس کی
خطرناکی اور زیادہ محسوس ہوگی، کیونکہ ان مشنری
اسکولوں کا مقصد ہی یہ ہے کہ مسلمانوں میں بداعتقادی کا بیج
بویا جائے اور ان کو ان کے مذہبی ورثہ سے دور کردیا جائے جس کی
وجہ سے وہ اگرچہ عیسائی نہ ہوں، تاہم مسلمان بھی باقی نہ
رہیں۔
علامہ اقبال کی روشن خیالی
اور دوراندیشی سے کس کو اختلاف ہوگا، انھوں نے یورپ کی
درسگاہوں میں تعلیم حاصل کی، وہاں کے اچھے برے کو قریب سے
دیکھا، وہاں کی اقوام کا مزاج بھی دیکھا، پھر یہاں
کے حالات بھی دیکھتے رہے، غرض یہ کہ ایک فلسفی کی
حیثیت سے ہرچیز کا بنظرغائر مطالعہ کیا، پھر ان عیسائی
اسکولوں کی تعلیم اور ان کے نظام پر جو خیال ظاہر کیا،
اسکو سنئے:
ا و ر یہ ا ہلِ کلیسا کا نظا
مِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت
کے خلاف
ایک امریکن خاتون محترمہ مریم
جمیلہ نے (جو ۱۹۶۰/ میں یہودیت
سے توبہ کرکے مسلمان ہوئیں) اپنی کتاب ”اسلام اور آج کی مسلمان
خاتون“ میں لکھا ہے کہ:
The muslim mother on no account ever consent to sending her child ren to
christian missonary schools or convent where they are totally alionted from
there religious and cultural heritage, although she must realise that the
government national schools do not provide a much happier solution. (Islam and
the Muslim women today, P. 13)
(ترجمہ: مسلمان ماں
کو کسی بھی قیمت پر اپنے بچوں کو عیسائی مشنری
اسکولوں یا کانونٹ کو بھیجنے پر راضی نہ ہونا چاہئے، جہاں ان
بچوں کو پوری طرح اپنے مذہبی ومعاشرتی ورثہ سے الگ کردیا
جاتا ہے۔ اگرچہ یہ بھی یقین کرنا چاہئے کہ سرکاری
اسکول بھی کچھ زیادہ تسلی بخش سامان مہیا نہیں
کرتے)
ایک نو مسلم مغربی مصنف کا انتباہ
اسی طرح ایک اور نومسلم مغربی
مصنف محمد اسد نے مغربی نظام تعلیم اوراسکولی تربیت کے
متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ بھی چونکادینے والے
ہیں۔
چنانچہ وہ اپنی کتاب [Islam at the cross road] میں لکھتے ہیں:
Western education of muslim youth is bound to undermine their will to
believe in the mesege of the prophet, their will to regard them selves as
representatives of the peculiar, theocratic, civilisation of islam. [P: 84]
(یعنی
مسلم نوجوانوں کی مغربی تعلیم ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام
پر ایمان و یقین رکھنے اور اپنے آپ کو اس مخصوص الٰہی
تمدن وتہذیب کا نمائندہ سمجھنے کے قابل نہ رکھے گی جو اسلام لیکر
آیا ہے)
اس کے بعد پھر آگے چل کر لکھتے ہیں:
There can be no daubt what ever that
religious belief is rapidly Losing ground among the "intelligentsia"
educated on western lines. (Islam at the Cross road, P: 100)
(یعنی
جو کچھ بھی ہو، اس میں شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ ”ان روشن خیالوں“
کے اندر دینی عقائد بڑی تیزی کے ساتھ کمزور ہوتے
جارہے ہیں، جن کی تعلیم مغربی بنیادوں پر ہوئی
ہے)
پھر آگے ایک عجیب بات فرماتے
ہیں کہ:
ہماری (مسلمانوں کی) پوری
تعلیمی پسماندگی اور بے بضاعتی ان مہلک اثرات کے مقابلے میں
کوئی حیثیت نہیں رکھتی جو دینی بنیادوں
پر مغربی تعلیم کی اندھی تقلید کی وجہ سے
مرتب ہونگے۔
(Islam at the
Cross Road, P: 100)
بعض بلکہ اکثر لوگ آج مسلمانوں کی
تعلیمی پسماندگی کا رونا روتے ہیں اور ان کو مشورہ دیتے
ہیں کہ جو کچھ بھی ہو اور جیسا بھی بن پڑے وہ عصری
علوم حاصل کریں، ایسے لوگ محترم محمد اسد صاحب کی اس عبارت کو
بار بار پڑھیں اور غور کریں کہ انھوں نے کیا فرمایا ہے؟
بلاشبہ پسماندگی بری چیز
ہے مگر مغربی تعلیم پر اندھا دھند فریفتہ ہونا اور اس کو جوں کا
توں از اول تا آخر لیکر خوش ہوجانا، ایمان اور دینی بنیادوں
پر کیا مہلک اثرات مرتب کرتا ہے؟ اس کا موازنہ تعلیمی پسماندگی
سے کیا جائے تو اس پسماندگی کی کوئی حیثیت نہ
ہوگی بشرطیکہ ایمان و اسلام کی قدر دل میں
ہو۔
نصاب اور مشرکانہ ذہنیت
اس کے بعد عصری تعلیم گاہوں
کا ایک سرسری جائزہ لیجئے، تو معلوم ہوگا کہ یہ اسکول ایمان
کیلئے کس قدر خطرناک ہیں، ان اسکولوں میں جو نصاب پڑھایا
جاتا ہے اس میں انگلش زبان کی ہر کتاب میں مشرکانہ وکافرانہ ذہنیت
کارفرما نظر آتی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اس نصاب کو پڑھنے والے بچوں پر
اس کے اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں۔
تیسری جماعت کی کتاب
"Rhythm in Reading" جو کرناٹک
اسٹیٹ میں منظور شدہ ہے، اس میں ایک واقعہ اس طرح سے درج
ہے کہ
”ایک لکڑہارا اپنی کلہاڑی
سے درخت کاٹ رہا تھا، کلہاڑی چھوٹ کر ندی میں گرپڑی جو قریب
ہی بہہ رہی تھی، وہ پریشان ہوا تو سورج کا خدا ”اپالو“
ظاہر ہوا اور ندی میں کود گیا اور اس کی کلہاڑی
لاکر دیا الخ۔
اس واقعہ کی حکایت میں
”سورج کا خدا“ کے الفاظ ایک سادہ ذہن بچہ پر کس قسم کے اثرات چھوڑیں
گے؟ نیز خدا کا سامنے ظاہر ہونا، بات کرنا، دریا میں کودنا، کیا
غیراسلامی ذہن کی پیداوار نہیں؟ اور مشرکانہ و
کافرانہ ذوق کی چیزیں نہیں؟
میں نے ایک چھ سات سالہ بچی
کی جو دوسری جماعت میں زیرِ تعلیم تھی، اس کی
ایک کاپی دیکھی، اس میں ایک سوال و جواب اس
طرح لکھا ہوا تھا:
Who is God ? God is our father
یعنی
خدا کون ہے؟ خدا
ہمارا باپ ہے۔
غور کیجئے کہ یہ ”خداکو باپ
قراردینا“ کیا عیسائی ذہنیت اور مشرکانہ عقیدہ
نہیں ہے؟ ہمارے بچے اسکوپڑھ کر کیا مسلمان باقی رہ سکتے ہیں؟
یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ یہ بچی کسی عیسائی
اسکول کی طالبہ نہیں تھی؛ بلکہ ایک مسلمان کے زیرنگرانی
چلنے والے اسکول کی طالبہ تھی مگر چونکہ وہاں کا نصاب و نظام ہی
مغربی افکار اور بنیادوں پر مرتب ہوا ہے تو سب اس کے لپیٹ میں
آئے ہوئے ہیں۔
مغربی نظامِ تعلیم کے اثرات
اسی وجہ سے اس نظام کے تحت پرورش
پانے والے لوگ عام طور پر بے دینی اور الحاد و دہریت یا
کم از کم دین و مذہب کے بارے میں تشکیک و تذبذب کا شکار ہوجاتے
ہیں اور اسلام اوراس کی تعلیمات پر حملے کرنے میں بھی
کوئی باک محسوس نہیں کرتے۔
علامہ شبلی نعمانی نے اپنے خطبات میں فرمایا ہے کہ:
”جدید تعلیم میں مذہبی
اثر نہ ہونے کا یہ نتیجہ ہے کہ سینکڑوں تعلیم یافتہ
مذہبی مسائل کو تقویم پارینہ سمجھتے ہیں، اخباروں میں
آرٹیکل نکلتے ہیں کہ اسلام کا قانون وراثت خاندان کو تباہ کردینے
والا ہے، اسلئے اس میں ترمیم ہونی چاہئے، ایک صاحب نے
مضمون لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم جب مکہ میں تھے، پیغمبر تھے، مدینہ جاکر بادشاہ
ہوگئے اور اسلئے قرآن مجید میں جو مدنی سورتیں ہیں
وہ خدائی احکام نہیں بلکہ شاہانہ قوانین ہیں، ایک
موقعہ پر مجھ سے لوگوں نے لکچردینے کی درخواست کی، میں نے
پوچھا کس مضمون پر لکچردوں؟ ایک گریجویٹ مسلمان نے فرمایا
کہ اور چاہے جس مضمون پر تقریر کیجئے لیکن مذہب پر نہ کیجئے،
ہم لوگوں کو مذہب نام سے گھن آتی ہے (نقل کفرکفر نہ باشد)یہ صرف دوچار
شخص کے خیالات نہیں، مذہبی بے پروائی کی عام وبا چل
رہی ہے، فرق یہ ہے کہ اکثر لوگ دل کے خیالات دل ہی میں
رکھتے ہیں اور بعض دلیر طبع لوگ انکو ظاہربھی کردیتے ہیں۔“
(خطبات شبلی : ۵۸-۵۹)
علامہ اقبال جو انہی
کالجوں کے پروردہ اور یورپی دنیا اور وہاں کے لوگوں کی عیاریوں
و مکاریوں سے خوب واقف تھے، انھوں نے انہی حالات کے مطالعہ و مشاہدہ
کے بعد کہا تھا کہ:
ہم
سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا
خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے
شارحِ اقبالیات پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے لکھا ہے
کہ:
”تعلیم حاصل کرکے نوجوانوں کو سرکاری
ملازمت تو بیشک مل جاتی ہے، لیکن اس مغربی تعلیم کی
وجہ سے ان کے اندر الحاد کا رنگ بھی تو پیدا ہوجاتا ہے، مسلمان کے گھر
میں دولت آرہی ہے، لیکن کفر کی لعنت بھی اس کے ساتھ
ساتھ داخل ہورہی ہے، تو ایسی دولت کس کام کی؟ واضح ہو کہ
مغربی تعلیم کے مضر ہونے پراقبال نے فیصلہ
۱۹۱۳/ میں صادر کیا تھا،اور قوم اس وقت سے لیکر
تا ایں دم اسی سم قاتل کو نوشِ جانِ ناتواں فرمارہی ہے، تو ناظرین
خود اندازہ کرلیں کہ مریض اب کس منزل میں ہوگا؟ (بانگ درا مع
شرح، ص: ۵۵۷ تا ۵۵۸)
غرض یہ کہ مغربی تعلیم
کی ساخت و پرداخت ہی کچھ اس طرح واقع ہوئی ہے کہ اس سے کفر و
شرک اور بغاوت و طغیانی اور الحاد و دہریت کے جذبات و خیالات
جنم لیتے اور پرورش پاتے ہیں، کیونکہ ان تعلیم گاہوں میں
علوم وفنون کی تعلیم کا جو منہج ہے وہ مغربی ثقافت و تہذیب
کے مزاج و خصوصیات سے تشکیل پایا ہوا ہے، اور ان فکری و
فلسفیانہ رجحانات کا آئینہ دار ہے جن سے مغربی ثقافت و تہذیب
پروان چڑھی ہے۔
مشنری اسکولوں میں عیسائیت کا پرچار و تعلیم
عیسائی مشنری اسکولوں میں
جن کی ہمارے معاشرے میں خاصی مانگ ہے اور وہ بڑی عزت و
توقیر کی نگاہوں سے مسلم سماج میں بھی دیکھے جاتے ہیں
اور مسلمان بچوں کی اکثریت ان میں زیر تعلیم ہے، حتی
کہ بعض بعض عیسائی کانونٹوں میں ساٹھ سے ستر فیصد تک
مسلمان طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں، ان میں سے بیشتر
اسکولوں میں باقاعدہ عیسائیت کا پرچار ہوتا ہے بلکہ تعلیم
ہوتی ہے اوراس سے بھی آگے چرچ لے جاکر عملی طور پر طلبہ کو ان
کے مذہبی مراسم ادا کرنے پرمجبور کیا جاتا ہے۔
اس جگہ اس واقعہ کا ذکر کرتا چلوں کہ ایک
خاتون جن سے ہمارے خاندانی مراسم ہیں، وہ میرے گھر اپنے بچوں کو
قرآن پاک اور دینیات کی تعلیم کیلئے لایا کرتی
تھیں، ایک دن آئیں تو روتے ہوئے، جب رونے کی وجہ پوچھی
گئی تو بتایا کہ ابھی آتے ہوئے راستہ میں اچانک میرے
دونوں بچے نظر نہ آئے تو میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتی رہی،
اچانک میری نظر راستہ میں بنے ہوئے مریم یا عیسیٰ
علیہا السلام کے ایک بت پر پڑی، تو وہاں میرے دونوں بچے
بت کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ہاتھ جوڑے ہوئے ہیں، یہ دیکھ کر
میں وہاں گئی اور انکو مارکر لے آئی، اس پر بچے کہتے ہیں
کہ ہم نے یہ کیا برا کیا ہے؟ یہ کام تو ہم اسکول میں
روزانہ کرتے ہیں۔ وہ خاتون کہنے لگی کہ اس پر مجھے رونا آرہا
ہے۔ میں نے کہا کہ قصور بچوں کا نہیں، آپ والدین کا ہے،
جو محض دنیاکیلئے دین سے بے فکر ہوجاتے ہیں۔
بہرحال اس واقعہ سے سمجھا جاسکتا ہے اور
سمجھنا بھی چاہئے کہ یہ مشنری اسکول کس طریقہ پر بچوں کو
ایمان و اسلام سے دور اور کفر و شرک و عیسائیت سے قریب
کررہے ہیں؟
مشنری اسکولوں میں بائبل کے اسباق
اسی طرح بہت سارے اسکولوں میں
بائبل کے اسباق کو لازم کردیاگیا، بلکہ مجھے ذاتی طور پر معلوم
ہے کہ بعض اسکولوں میں بائبل کے سبجیکٹ (Subject) میں ناکام ہوجانا (اگرچہ
دوسرے تمام مضامین میں کامیاب ہو) مانع ترقی ہے۔
حالانکہ اسلامی نقطئہ نظر سے بائبل کا پڑھنا حرام ہے، سوائے اس کے کہ کوئی
تحقیق کا کام کرنے والا عالم محقق تردید کیلئے مطالعہ
کرے۔
حدیث میں آتا ہے کہ ایک
دفعہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ توریت کانسخہ لاکر مطالعہ کرنے
لگے، یہ دیکھ کر سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرئہ انور
غصہ کی وجہ سے سرخ ہوگیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
نے حضرت عمر سے فرمایا کہ عمر! تم اللہ کے نبی علیہ السلام
کا چہرہ نہیں دیکھتے؟ حضرت عمر نے جو آپ کا چہرہ دیکھا، تو پریشان
ہوگئے اور بار بار اللہ و رسول کے غضب سے پناہ مانگنے لگے۔ اس سے آپ کا غصہ
کم ہوا، پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ : اس ذات کی قسم جس کے
قبضہ میں محمد کی جان ہے، اگر موسیٰ علیہ السلام بھی
تم میں نازل ہوجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی اتباع کرلو، تو
تم سیدھے راستے سے بھٹک جاؤگے۔ (مشکوٰة، ص: ۳۲)
جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ
کیلئے اسکو برداشت نہیں فرمایا تو اندازہ کرو کہ ان بچوں کیلئے
جن کی لوحِ دل ہرنقش کو قبول کرلیتی ہے، ان کیلئے اسکی
تعلیم پھر اس کے لئے محنت اور تیاری اور اس کے اسباق میں
کامیابی کی فکر کو کس طرح جائز قرار دیا جاسکتا ہے یا
کس طرح اس کو برداشت کیا جاسکتا ہے؟
بائبل ایک پوپ کی نظر میں
پھر یہ کتاب ”بائبل“ محرف ہونے کے
ساتھ سچائی و صداقت سے خالی اور معقولیت و علمیت سے
انتہائی دور ہے اور بعض جگہ اس کے مضامین ایمان سوز امور پر
مشتمل ہیں۔
اس کیلئے علمائے اسلام کی
کتابوں جیسے مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی ”اظہار
الحق“ وغیرہ کا مطالعہ کرنا چاہئے، میں یہاں پادری ایم،
اے، پال کی ایک عبارت پیش کرنے پر اکتفاء کرتا ہوں، وہ اپنی
کتاب ”میں نے اسلام کیوں قبول کیا“ میں لکھتے ہیں
کہ:
”۱۹۲۲/ میں
بچوں کے نصابِ تعلیم کے مذہبی حصے پر بحث کرتے ہوئے ڈین مذکور (یعنی
ویسٹ منسٹر گرجا کے ڈین) نے ایک جلسہ میں فرمایا کہ
اگر ہم اس نصاب میں کتاب پیدائش (بائبل کی پہلی کتاب) کی
کہانیاں رکھ دیں، تو آئندہ نسل یہی سمجھے گی کہ
ہمارا معیارِ صداقت بہت ہی ادنیٰ درجہ کا ہے۔“
اسکے نقل کرنے کے بعد پادری ایم․
اے․ پال نے اس کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
”اس معنی خیز فقرہ سے یہ
مراد ہے کہ کتابِ پیدائش کی کہانیاں اس فاضلِ الٰہیات
کے نزدیک خالی از صداقت ہیں۔ (میں نے اسلام کیوں
قبول کیا، ص: ۱۴-۱۵)
غرض یہ کہ بائبل ایک غلط اور
گمراہ کن کتاب ہے اور اسلامی نقطئہ نظر سے اس کے پڑھنے کی اجازت نہیں،
مگر شہری اسکولوں میں اس کو داخل نصاب کیاگیاہے اور مسلم
بچے بھی اس کے پڑھنے پر مجبور کئے جاتے ہیں، تواب مسلم والدین
کو غور کرنا چاہئے اور اس مسئلہ کا حل تلاشنا چاہئے۔
آپ سب کچھ بنئے مگر اسلام کے ساتھ
آپ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو سب
کچھ بنائیے: ڈاکٹر، انجینئر، سائنس داں، تاریخ داں، جغرافیہ
داں، ریاضی داں، اورمسلمان کو ان سب علوم و فنون کی ضرورت بھی
ہے، مگر اس کے ساتھ آپ پر لازم و ضروری ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو
خدا پرست بنائیے، نبی کا غلام اور سنت کا عاشق بنائیے، دین
کا خادم اورداعی بنائیے اورآخرت کا متمنی و طالب بنائیے،
وہ صرف نام کے مسلمان نہیں بلکہ نظر وفکر کے لحاظ سے بھی، عمل و کردار
سے بھی، صورت و شکل سے بھی، سیرت و حقیقت کے اعتبار سے بھی،
ہر لحاظ سے مسلمان ہوں اور اس کیلئے آپ کو اس پر غور کرنا چاہئے کہ کیا
موجودہ ”مغربی نظام تعلیم“ اس کا ساتھ دے سکے گا؟ یا یوں
کہئے کہ کیا آپ اس ”اسلامی نظریہ“ کے ساتھ ”موجودہ مغربی
تعلیم“ کا ساتھ دے سکیں گے؟
مغربی نظامِ تعلیم کا اصل مقصد
بہت سارے لوگ اس حقیقت سے بالکل
ناواقف ہیں کہ ہندوستان میں انگریزی سامراج نے جو مغربی
تعلیم نظام رائج کیا، اس کا مقصد انگریزی تعلیم سے
زیادہ انگریزیت کی تعلیم تھی، وہ اس نظام کے
ذریعہ ہندوستانی لوگوں میں انگریزی ذہنیت کو
قبول کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا چاہتاتھا، اور اس کی تصدیق
”لارڈ میکالے“ کی رپورٹ سے ہوتی ہے، جو اس نے
۱۸۵۳/ میں مقبوضہ ہندوستان کے گورنر جنرل کو پیش
کی تھی، چنانچہ وہ کہتا ہے کہ:
”ہمیں اس وقت بس ایک طبقہ پیدا
کرنے کی سعی کرنی چاہئے جو ہمارے اور ان کروڑوں انسانوں کے مابین
ترجمانی کے فرائض سرانجام دے سکے، جن پر ہم اس وقت (ہندوستان میں)
حکمراں ہیں، ایک ایسا طبقہ جو خون اور رنگ کے اعتبار سے
ہندوستانی ہو مگر ذوق، طرزِ فکر، اخلاق اور فہم و فراست کے نقطئہ نظر سے
انگریز ہو۔“ (میکالے کا نظریہ تعلیم، ص:
۶۹، بحوالہ ہمارا نظامِ تعلیم، ص:۵۰)
حضرت مولانا تقی عثمانی زیدمجدہم
نے اپنی کتاب ”ہمارا نظامِ تعلیم“ میں اس رپورٹ کے متعدد
اقتباسات نقل کرکے، اسکے نظریہ کا خلاصہ جو پیش کیا ہے، وہ عبرت
خیز ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ:
”اس کا (میکالے کا) سب سے بڑا مشن یہ
تھا کہ ہندوستان کے باشندوں بالخصوص مسلمانوں کو اپنے سارے تہذیبی
ورثے کے بارے میں شدید احساسِ کمتری کاشکار بناکر ان کے دلوں پر
مغرب کی ہمہ گیر بالادستی کا سکہ بٹھادیا جائے، اور نئی
نسل کو ہرممکن طریقہ سے یہ یقین کرلینے پر مجبور
کردیا جائے کہ اگر دنیا میں ترقی اور سربلندی چاہتے
ہو تو اپنی فکر، اپنے فلسفے،اپنی تہذیب، اپنی معاشرت اور
اپنے ماضی پر ایک حقارت بھری نظر ڈال کر مغرب کے پیچھے پیچھے
آؤ اور اپنی زندگی کا ہر راستہ اسی کے نقوشِ قدم میں تلاش
کرو“۔ (ہمارا نظامِ تعلیم، ص: ۴۸)
محترم محمد اسد جن کا ذکر پہلے بھی
آچکاہے، انھوں نے [Islam at the Crossroad] میں مغربی طرز تعلیم پر بحث کرتے ہوئے لکھا
ہے:
”مغربی ادبیات کی تعلیم
کا انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلمان کیلئے اسلام ایک اجنبی
چیز بن کر رہ جائے، اور یہی بات یورپ کے فلسفہٴ تاریخ
پر بھی صادق آتی ہے کیونکہ یورپ کا نظریہٴ
تاریخ یہ ہے کہ دنیا میں دو ہی گروہ ہیں: رومی
و وحشی۔ تاریخ کو اس طرح بیان کرنے سے ان کا مقصد یہ
ہے کہ مغربی اقوام کی اور ان کے تمدن و تہذیب کی بالادستی
و فوقیت ثابت کی جائے،اور تاریخ کی اس طرح تعلیم
نوجوانوں کے دماغ میں اس کے سوا کوئی بات نہیں چھوڑتی کہ
وہ احساس کمتری میں مبتلا ہوں اور اپنی پوری ثقافت و تہذیب
اور اپنے مخصوص تاریخی عہد کو حقارت کی نظر سے دیکھیں۔
(ملخصا از، ص:۹۵ -۹۷)
اب غور کیجئے کہ مغربی نظامِ
تعلیم جو میکالے کے دور سے آج تک اسی نہج پر چلا آرہا ہے، اسکے
ساتھ اسلامی نظریات کس طرح ہم آہنگ ہوسکتے ہیں؟ اور کیا
اسکا عقلی و منطقی طورپر امکان بھی ہے؟
سادہ لوحی یا خوش فہمی
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ
دونوں ہم آہنگ ہوسکتے ہیں، وہ سادہ لوحی یا خوش فہمی میں
مبتلا ہیں، مولانا عبدالماجد دریابادی جو کالج ہی
کے پروردہ اور وہاں کے سرد وگرم چشیدہ بزرگ ہیں، اور ایک زمانے
میں اسی مغربی تعلیم نے ان کو الحاد کا شکار بنادیاتھا،
وہ اپنی ”آپ بیتی“ میں ایک مقام پر مغربی طرز
تعلیم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”لفظ تعلیم و اعلیٰ تعلیم
سے مرعوب بلکہ مسحور ہوکر جو پرانے قسم کے مسلمان والدین اپنی اولاد
کو بے تحاشا انگریزی کالجوں میں جھونکتے جاتے تھے، یہ بات
انکے سوچنے کی تھی، تعلیم کو وہ اپنے مکتبوں اور مدرسوں پر،
اپنے دیوبند و فرنگی محل پر قیاس کررہے تھے، جہاں گانے بجانے کی
آواز ہی کان میں پڑجانا ایک جرم تھا، یہاں تواس کے برعکس
گانا بجانا داخلِ ہنر اور دلیلِ کمال تھا،اور نقالی سے بچنا کیسا؟
ایکٹ کرنا اور سکھایا جاتا تھا،اچھی ایکٹنگ (نقالی)
کی تو داد، دل بھر کر دیجاتی اور انعام اور تحفے جو ملتے وہ
الگ، ایسے ماحول میں لڑکے کو ڈال کر، سادہ دل مسلمان والدین کا یہ
توقع رکھنا کہ لڑکا پارسا، صالح اور کسی درجہ میں متقی ہوکر
نکلے گا کس غضب کی سادہ لوحی تھی“؟ (آپ بیتی، ص:
۱۲۰ تا ۱۲۱)
اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ موجودہ
نظام تعلیم کے ساتھ ایک آدمی یہ تمنا رکھے کہ اسلام کے
مطابق زندگی گزاری جاسکے گی اور یہ کہ اس کے عقائد و
اعمال، اسلام کے مطابق باقی رہ سکیں گے، بڑا مشکل ہے۔
موجودہ نظامِ تعلیم مغربی کی سازش
وجہ یہ ہے کہ مغربی نظامِ تعلیم
فی الواقع ایک سازش ہے، جس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے شوق و رغبت
بلکہ روپیہ پیسہ صرف کرکے ہم اس سازش کا شکار بن رہے ہیں۔
مفکر اسلام حضرت مولانا سید
ابوالحسن علی ندوی فرماتے ہیں:
”یہ مغربی نظامِ تعلیم
درحقیقت مشرق اور اسلامی ممالک میں ایک گہرے قسم کی
لیکن خاموش نسل کشی کے مرادف تھا، عقلاء مغرب نے ایک پوری
نسل کو جسمانی طورپر ہلاک کرنے کے فرسودہ اور بدنام طریقہ کو چھوڑ کر
اسکو اپنے سانچے میں ڈھال لینے کا فیصلہ کیا اوراسکام کیلئے
جابجا مراکز قائم کئے جن کو تعلیم گاہوں اور کالجوں کے نام سے موسوم کیا۔“
(مسلم ممالک میں مغربیت اوراسلامیت کی کشمکش:
۲۴۷)
ان باتوں کو علماء کی زبانوں سے سن
کر لوگ علماء کو دقیانوسیت کی طرف منسوب کردیتے ہیں
اور خود اپنے آپ کو روشن خیال سمجھ جاتے ہیں، اسلئے یہاں میں
نے بعض ان لوگوں کے حوالے بھی دئیے ہیں جن کو لوگ روشن خیال
قرار دیتے ہیں اور جو خوداس تعلیم سے اخذ و استفادہ کئے ہوئے ہیں،
نیز اس سازش کو سمجھنے کیلئے علامہ اقبال کے یہ اشعار
بھی قابل غور ہیں: وہ فرماتے ہیں:
سینے
میں ر ہے ر ا زِ ملوکا نہ تو بہتر
کرتے
نہیں محکوم کو تیغوں سے کبھی زیر
تعلیم
کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہوجائے
ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر
تاثیر
میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے
کا ہمالیہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر
اسی بات کو اکبر الہ آبادی
مرحوم نے اس طرح ادا کیا ہے:
مشرقی
تو سر دشمن کو کچل دیتے ہیں
مغربی
اس کی طبیعت بدل دیتے ہیں
حاصل یہ ہے کہ مغربی ذہنیت
یہ ہے کہ اپنے دشمنوں اور مخالفوں کو زیر کرنے کیلئے تیغ
و سنان کے بجائے، تعلیم کے نام پر دماغوں اورمزاجوں کو بدل دیتے ہیں
اور اپنے نظریات و خیالات کے مطابق انکو ڈھال لیتے ہیں، میں
اوپر اس نظام تعلیم کے بانی ”لارڈ میکالے“ کی تصریح
نقل کرچکا ہوں کہ وہ اس نظام سے ایک ایسا طبقہ پیدا کرنا چاہتا
تھا جو رنگ و نسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو مگر مزاج اور فکر اور نظریات
و خیالات کے لحاظ سے انگریز ہو، کیا اس کے بعد بھی کسی
کو ہماری بات کی صداقت میں شک و شبہ کی گنجائش ہے؟
لیجئے گھر کی شہادت حاضر ہے
انگریزی تعلیم کے اس نتیجہ
کیلئے میں خود انگریز کے گھر کی شہادت پیش کرتا
ہوں، اوپر بھی بعض شہادتیں گزری ہیں، اب یہ بھی
پڑھ لیجئے:
”ڈاکٹر ڈبلو ہنٹر کہتا ہے: ہمارے اسکولوں
اور کالجوں سے پڑھا ہوا کوئی نوجوان ہندویا مسلمان ایسا نہیں
ہے جس نے اپنے بزرگوں کے عقائد کو غلط سمجھنا نہ سیکھا ہو۔“ (بحوالہ
نقش حیات، حضرت شیخ الاسلام مدنی، جلد دوم، ص:
۱۴۰)
ان تمام شہادتوں سے یہ بات کالشمس فی
نصف النہار واضح ہے کہ مغربی نظام تعلیم و نصاب تعلیم چند مخصوص
نظریات اور مقاصد پر مبنی کیاگیا ہے اور وہ مقاصد ونظریات
کھلے طور پر اسلامی نقطئہ نظر سے اور شرعی مقاصد سے متصادم و متخالف ہیں۔
موجودہ مسلم عصری تعلیم گاہیں
اس کے بعد ہمیں اس طرف نظر کرنا ہے
اوراس کا جائزہ لینا ہے کہ آج مسلمانوں کی جانب سے جو عصری تعلیم
گاہیں جاری و عام کی گئی ہیں، ان کا کیا حال
ہے؟
ہم جب اس پہلو پر غور کرتے ہیں تو
بڑے دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عام طور پر مسلمانوں کی نگرانی
و سرپرستی میں چلنے والے تعلیمی ادارے بھی نصابِ
تعلیم، طرز تعلیم اور نظامِ تعلیم کے لحاظ سے عیسائی
اور سرکاری تعلیم گاہوں سے کچھ بھی مختلف نہیں؛ اور وہ
ساری برائیاں اور خرابیاں جو اوپر ذکر کی گئیں، ان
مسلم عصری تعلیم گاہوں میں بھی علی وجہ الاتم موجود
و باقی ہیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ ان اداروں کے بانی
مبانی اور ان کے سرپرست و نگراں اور ان کے اندر کام کرنے والا عملہ، یہ
سب اگرچہ مسلمان ہیں مگر ان کا فکر و نظریہ بعینہ وہی ہے جو غیر مسلم دانشوروں کا ہے اور ان لوگوں نے
ان اداروں کیلئے وہی سب کچھ درآمد کیاہے جو انگریزوں اوریہودیوں
نے تیار کیاہے، اور شعوری طور پر یا غیرشعوری
طور پر ان لوگوں نے ”مغربی نظامِ تعلیم و تربیت“ کو اس طرح قبول
کرلیا ہے جیسے کہ یہ کوئی آسمانی و الٰہی
پیغام ہو، جس سے انحراف و تجاوز نہیں کیا جاسکتا، حتیٰ
کہ مغربی نظامِ تعلیم بلکہ نظریہ تعلیم کو ان لوگوں نے اس
کی ساری خامیوں اور خرابیوں کے ساتھ قبول کرلیا اور
اس کے کسی نقطہ اور شوشہ کو بھی تبدیل کرنا، ان کے نزدیک
اسی طرح ناروا جسارت قرار پائی جیسے کلام اللہ میں کسی
طرح کی تبدیلی حرام و ناجائز ہے، حالانکہ یہ مغربی
نظریہٴ تعلیم ان لوگوں کے ذہن کی پیداوار ہے جن کے
عقائد و اصول، جن کے اخلاقی اقدار و انظار، جن کے معاشرتی طور و طریقے،
جن کے اقتصادی افکار و نظرئیے از اول تا آخر اور مکمل طور پر اسلامی
اقدار و عقائد اور نظریوں اور طریقوں سے مختلف ہیں۔
ظاہر ہے کہ جب سب کچھ مغرب سے درآمد کیاگیا
ہے اوراس کو جوں کا توں قبول کرکے نافذالعمل قرار دیاگیا ہے، تو ان
مسلم اداروں اور دانش گاہوں کا حال، عیسائی مشنری یا
سرکاری اسکولوں سے کس طرح اور کیوں کر مختلف ہوسکتا ہے؟
ایک مسلم اسکول میں بچوں کو
ڈانس کرایاجاتا ہے اور اس کا نام فنونِ لطیفہ رکھا گیا ہے، ایک
مسلم اسکول میں بچیوں کیلئے پردہ کو ممنوع قرار دیاگیا
ہے اورایک اسکول ایساہے جہاں کا یونیفارم انتہائی
بے حیائی اور بچیوں کیلئے نیم عریانی
کا ذریعہ ہے۔ ایک مسلم اسکول میں جو ایک مسجد سے
منسلک اور مسجد کے ماتحت چلتا ہے، اس میں جلسہ کے موقعہ پر باقاعدہ میوزک
کے ساتھ بچوں کو نچایاگیا۔
یہی نہیں بلکہ ان مسلم
اسکولوں میں عموما اسلام کے فرائض و بنیادی احکامات تک کی
پرواہ نہیں کی جاتی، نمازوں کا وقت ہوتا رہے اور نماز و جماعت
کا کوئی نظام اسکول کی جانب سے نہیں ہوتا، بلکہ بعض اسکولوں میں
یہ بھی سناگیا کہ طلبہ نماز پڑھنا چاہتے ہیں مگر اسکول والے
اپنے اوقات تعلیم میں کوئی فرق و تبدیلی کرنا نہیں
چاہتے، جس کی وجہ سے ان کی نمازیں غارت ہوجاتی ہیں۔
مسلم اسکولوں کے ان حالات سے بخوبی
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان اداروں کے ذمہ داروں اور سرپرستوں کی ذہنیت
کس قدر مغرب زدہ ہے۔
مسلم ممالک کی صورت حال
مسلم ممالک کاحال بھی وہی ہے؛
بیروت، قاہرہ، بغداد، ترکی، کویت، دبئی وغیرہ
مسلمانوں کے مراکز پر عیسائی منادیوں اور مشنریوں نے مشن
اسکولوں اور کالجوں کو قائم کرکے مغربی تہذیب و ثقافت، مغربی
آداب و رسوم اور مغربی طرز معاشرت کا ایک جال بچھادیا ہے اور اس
وقت پورا عالم اسلام اس کی لپیٹ میں آچکا ہے، اور ہمارے افکارو
نظریات اور ہماری ثقافت و تہذیب صدفی صد مغربی
ثقافت و تہذیب کے سانچے میں ڈھل چکی ہے۔
اور ان کی نقالی و تقلید
میں جو اسکول و کالج مسلمانوں نے قائم کئے ہیں، ان کا حال ان سے کچھ
بھی مختلف نہیں بلکہ درحقیقت یہ لوگ اس سلسلہ میں
مغرب کو اپنا امام اور خود کو اس کا غلام سمجھتے ہیں، اسلئے وہاں کے تعلیمی
شعبے اور ان سے منسلک افراد نے نہ صرف یہ کہ مغربی نظریہٴ
تعلیم کے مطابق، نصاب و نظامِ تعلیم و تربیت کو درآمد کرلیا،
بلکہ انھوں نے اپنے تعلیمی منصوبوں کی تکمیل اور علمی
اداروں کی تشکیل میں مغربی ممالک کے ماہرین تعلیم
کو مکمل طور پر اختیار دے رکھا ہے کہ وہ اپنا نصاب اور نظام جس طرح چاہیں،
وہاں نافذ و جاری کریں، مزید برآں یہ کہ یہ لوگ ان
مغربی ملکوں میں اپنے تعلیمی وفود بھیجتے ہیں
تاکہ وہاں کے ماہرین تعلیم کی آغوش تربیت میں رہ کر
وہ لوگ علمی نشوونما حاصل کریں اور پھر اپنے ملک میںآ کر اسی
کے مطابق تعلیمی نقشہ و نظام طے کریں اور اسکو نافذ کریں۔
اس طرزعمل کا نتیجہ یہ نکلا
کہ وہاں ایک طبقہ (بلکہ بہت بڑا طبقہ) ایسا پیدا ہوگیا جو
مغربی نظریات سے متاثر بلکہ مرعوب ہوکر اسلامی عقائد وافکار اور
دینی و شرعی اقدار و انظار سے کلیتاً دست بردار ہوگیا،
یا کم از کم اس سلسلہ میں تذبذب اور فکری و ذہنی انتشار
کا شکار ہوگیا۔
اس جگہ مفکراسلام حضرت مولانا سید
ابوالحسن علی ندوی کی ایک
بات جو آپ نے اسی سلسلہ میں فرمائی ہے، نقل کرنا مناسب ہوگا، آپ
فرماتے ہیں:
”آپ کو ترکی سے لیکر انڈونیشیاتک
مسلمان ممالک کے جتنے سربراہ اور رہنما نظر آئیں گے وہ سب اسی مغربی
نظامِ تعلیم کی پیداوار ہیں، ان میں سے جن کو براہ
راست کسی مغربی ملک یا یورپ کے کسی مشہور تعلیمی
مرکز میں پڑھنے اور پروان چڑھنے کا موقع نہیں ملا، انھوں نے اپنے ملک
میں رہ کر اس نظام تعلیم سے (اس کے مخلص نمائندوں کی نگرانی
و سرپرستی میں) پورا فائدہ اٹھایا، ان میں سے متعدد اشخاص
نے ملٹری کالجوں میں تعلیم پائی جہاں مغربی طرز کی
تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے“۔ (مسلم ممالک میں
مغربیت اوراسلامیت کی کشمکش: ۲۴۷)
پھر اس طبقے نے جو اسکول، کالج اور جامعات
اور یونیورسٹیاں قائم کی ہیں، اندازہ کیجئے
کہ ان کا حال مغربی طرز سے کیوں کر مختلف ہوسکتا ہے؟ لازماً وہاں بھی
وہی ہوا اور ہونا چاہئے تھا کہ اسی مغربی طرز کے ادارے قائم
ہوگئے اور اس میں روز بروز اضافہ ہوتاجاتا ہے۔
مسئلہ کا حل کیا ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ اس صورت حال سے
نکلنے کی کیا صورت ہے اور تعلیمی مسئلہ کو حل کرنے کی
سبیل کیا ہے؟ جس سے ایک طرف علوم و فنون سے وابستگی و
تعلق بلکہ ان میں اختصار ومہارت پیدا ہو، اور دوسری طرف یہ
سارے علوم وفنون، معرفت خداوندی کا ذریعہ بن جائیں، اخلاق فاضلہ
کے حصول کا سبب بن جائیں اور شرافت و تہذیب کی طرف گامزن کردیں۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس صورت
حال سے چھٹکارا پانے کے لئے بڑی سنجیدگی اور غور وفکر کے ساتھ یکے
بعد دیگرے تین باتیں طے کرنی ہوں گی:
(۱) اولاً ہم کو ہماری حیثیت
و حقیقت پر نظر ڈالنا ہوگا اور یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم کون ہیں
اور کیا ہیں، ہمارا مقصدوجود کیا ہے؟
(۲) پھر ہمیں تعلیم کے
مقاصد کو متعین کرنا ہوگا، کہ تعلیم حاصل کرنے یا دوسروں کو تعلیم
دینے کا مقصد کیا ہے اور کیا ہونا چاہئے؟
(۳) پھر اسی کے مطابق نصاب
اور نظام طے کرنا ہوگا، کیونکہ تعلیم ہماری حیثیت و
حقیقت اور ہمارے طے شدہ مقاصد کے مطابق ہونا چاہئے۔ اب میں اس
اجمال کی وضاحت کرتا ہوں:
پہلی بات: میں نے یہ کہی کہ ہمیں
اولاً اپنی حقیقت وحیثیت پر نظر ڈالنا چاہئے، اس کی
تفصیل یہ ہے کہ ہمیں یہ یادرکھنا چاہئے کہ ہم
مسلمان ہیں، ہمارا مذہب اسلام ہے، جس میں ہمیں کچھ عقائد و
افکار اور احکام و اقدار کا پابند کیاگیا ہے اور ہمارے لئے یہ
پابندی ناگزیر ہے، اور ہمیں جاننا اور یقین کرنا
چاہئے کہ اسلام کوئی قومیت نہیں ہے بلکہ وہ ایک پاکیزہ
دین ہے جو عقائد و اقدار کاحامل بھی ہے اور داعی بھی،اور
وہ تمام سعادتوں کا جامع بھی ہے اور کفیل بھی اور ہدایت و
سعادت اسی دین کی پیروی میں منحصر ہے اور یہ
ایک نظامِ حیات ہے جو انسانیت کیلئے آب حیات ہے اور
مسلمان وہ امت ہے جو اللہ کے اس آخری و دائمی پیغام پر ایمان
ویقین رکھتی ہے، اور اسی کے مطابق زندگی کا کارواں
آگے بڑھاتی ہے۔
ظاہر ہے کہ جو امت ایسے دین کی
پابند و حامل ہے، اس کو بہرصورت اپنے عقائد واعمال، اپنے افکار و اقدار کی
ہر میدان میں اور ہر موقعہ پر حفاظت کرنا لازم ہے، ورنہ وہ اس دین
کی حامل ہی نہ رہے گی۔
اسی کے ساتھ ساتھ ایک اور بات
کو بھی اسے فراموش نہیں کرنا چاہئے، وہ یہ کہ اس امت کی
ذمہ داری صرف یہ نہیں ہے کہ اس دین پر عمل پیرا
ہوجائے بلکہ اسکے ساتھ اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس
کے ابدی پیغام کو دوسروں تک پہنچائے، اس کیلئے اس کو اپنے عمل
اور کردار سے بھی، اور زبان و قلم سے بھی کام لے کر اس ذمہ داری
کو پورا کرنا اس کے فرائض منصبی میں داخل ہے۔
دوسری بات: یہ ہے کہ تعلیم کے مقصد پر
نظر کرنا اور اس کو متعین کرنا بھی ضروری ہے، یہ کام بہت
ہی ضروری ہے، کیونکہ ہر کام اپنے مقصد کے تابع ہوتا ہے، جب تک
مقصد متعین نہ ہوگا اس وقت تک تعلیم اپنے اثرات و نتائج ظاہر نہیں
کرتی۔
انگریزی و مغربی تعلیم
نے اقتصادی ترقی اور عیش کوشی اورحصول مال و دولت کو اپنا
مقصد قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس تعلیم کے زیراثر پروردہ
لوگ اوراس کی آغوشِ تربیت سے تربیت پاکر نکلنے والے افراد اپنے
مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ اس کے برخلاف اسلام کا نقطئہ نظر
تعلیم کے سلسلہ میں یہ ہے کہ تعلیم کے ذریعہ انسان
حق و باطل کی تمیز، اخلاقی اقدار کی تحصیل اور
معرفت خداوندی کے حصول کے راستے تلاش کرے اور انسانی ہمدردی و
غمخواری کا جذبہ لے کر انسانوں کی خدمت کرے۔ الغرض ہمیں
تعلیم کے مقاصد کو شرعی انداز پر متعین کرنا چاہئے تاکہ اسی
کے مطابق نصاب ونظامِ تعلیم مقرر کیا جاسکے۔
تیسری بات: اب تیسری بات کو لیجئے
کہ نصاب و نظام کیا اورکیسا ہو؟ یہ بات پہلی دو باتوں کے
تابع ہے کیونکہ نصاب وہ بنے گا جو ہماری حیثیت اور حقیقت
سے مناسبت رکھنے والا ہو اور نظام بھی وہ تجویز ہوگا جو ہماری
ذات سے ہم آہنگ ہوگا اور اسی طرح نصاب ونظام تعلیم، ان مقاصد کے موافق
ہوگا جن کو ہم نے اپنی تعلیم کے مقاصد قرار دیا ہوا ہے۔
یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ ایک
وہ شخص جس کو اللہ پر ایمان ویقین نہ ہو، اور وہ ایک آزاد
اور من مانی زندگی گزارنے کو روا و جائز رکھتا ہو، اس کا نصاب و نظام
تعلیم ایک ایسے شخص کیلئے مفید و کارآمد نہیں
ہوسکتا جو اللہ پر ایمان و یقین رکھتا ہو اور اپنے لئے اسلامی
طرز کی زندگی کو ضروری سمجھتا ہو۔
جب یہ بات واضح ہوگئی تواب یہ
سمجھنا آسان ہے کہ ہمیں مسئلہ کے حل کیلئے مغربی نصاب و نظام
تعلیم کو یکسر ختم کرکے ایک ایسے نصاب اور نظام کی
تشکیل کرنی ہوگی، جو ہماری ذات اور ہمارے مقاصد سے مناسبت
و ہم آہنگی رکھتا ہو، اوراس میں ان باتوں کا لحاظ رکھاگیا ہو جن
کا ایک مسلمان کو لحاظ رکھنا ہے اور اس کی طبیعت سے ان کو
مناسبت ہو۔
ہم یہاں اس سلسلہ میں مفکر
اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی بات پیش
کرنا مناسب سمجھتے ہیں، جو آپ نے اسی مسئلہ کے حل کیلئے فرمائی
ہے:
”اس غیر فطری اور غیر
ضروری صورت حال سے چھٹکارا پانے کی اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں
کہ اس پورے نظام تعلیم کو یکسر تبدیل کردیا جائے اوراس کو
ختم کرکے نئے سرے سے ایک نیا نظام تعلیم تیار کیا
جائے، جو اپنی ملت اور امت کے قدوقامت پر راست آتا ہو اوراس کی دینی
و دنیوی ضروریات پوری کرسکتا ہو،اس مسئلہ کا حل خواہ
کتناہی دشوار نظرآتا ہو اور صبر آزما اور دقت طلب ہو،اس کے سوا کچھ نہیں
کہ اس نظام تعلیم کو ازسرنو ڈھالا جائے اوراس کو امت مسلمہ کے عقائد، زندگی
کے نصب العین، مقاصد، اور ضروریات کے مطابق بنایا جائے اوراس کے
تمام اجزاء سے مادیت، خدا سے سرکشی، اخلاقی و روحانی
قدروں سے بغاوت اور جسم و خواہشات کی پرستش کی روح اور اسپرٹ کو ختم کیا
جائے اوراس کے بجائے تقویٰ، انابت الی اللہ، آخرت کی اہمیت
اور فکر اور پوری انسانیت پر شفقت کی روح جاری ساری
کردی جائے، اس مقصد کیلئے زبان وادب سے لیکر فلسفہ اور علم
النفس تک، اور علومِ عمرانیہ سے لیکر اقتصادیات ومعاشیات
تک صرف ایک روح پیدا کرنی ہوگی، مغرب کے ذہنی غلبہ
اور تسلط کا خاتمہ کرنا ہوگا، اس کی قیادت اور امانت کا انکار کرنا
ہوگا،اس کے علوم و نظریات پر علمی تحلیل و تجزیہ اور بے
لاگ تنقید کا مسلسل اور جرأت مندانہ عمل کرنا ہوگا۔“ (اسلامی
ملکوں میں نظام تعلیم کی اہمیت، ص:
۲۱-۲۲)
نیز ایک اورکتاب (اسلامی
ممالک میں مغربیت و اسلامیت کی کشمکش) میں تقریباً
یہی بات فرماتے ہوئے مزید یہ بھی کہتے ہیں:
”زبان وادب سے لیکر فلسفہ و نفسیات
تک اور علوم عمرانیہ سے لیکر معاشیات و سیاسیات تک
سب کو ایک نئے سانچے میں ڈھالا جائے، مغرب کے ذہنی تسلط کو دور
کیا جائے، اس کی معصومیت و امامت کا انکار کیا جائے، اسکے
علوم و نظریات کو آزادانہ تنقید اور جراتمندانہ تشریح (پوسٹ
مارٹم) کا موضوع قرار دیا جائے، مغرب کی سیادت و بالادستی
سے عالم انسانی کو جو عظیم الشان نقصانات پہنچے ہیں، انکی
نشاندہی کی جائے، غرض مغرب کی آنکھوں میںآ نکھیں
ڈال کر اسکے علوم و فنون کو پڑھاجائے اور اسکے علوم و تجارب کو موادِ خام (Raw-Material) فرض کرکے اپنی
ضرورت اور اپنے قدوقامت اور اپنے عقیدہ ومعاشرت کے مطابق سامان تیارکیا
جائے۔“ (اسلامی ممالک میں مغربیت و اسلامیت کی
کشمکش)
اس تفصیل سے یہ بات روز روشن
کی طرح واضح ہوگئی کہ ہم مغرب سے استفادہ اسی صورت میں
کرسکتے ہیں جبکہ ہم اس نصاب اور نظام کو حذف و ترمیم اوراصلاح و تجدید
کی راہ سے مکمل طور پر گزاریں گے اوراس کو اس قابل بنائیں گے کہ
وہ ہمارے قد وقامت پر راست آسکے۔
یہ ہے وہ عظیم و نازک ترین
کام جس کے بغیر یہ امت یا تو ناکارہ رہے گی یا مغرب
کی غلام بن جائے گی، یہ کام اگرچہ طویل المیعاد ہے،
مگر ہے ضروری، اسلئے بہرحال اس کام کو کرنا چاہئے۔
دو غلط فہمیوں کا ازالہ
اس تفصیل سے بعض غلط فہمیوں
کا بھی ازالہ ہوگیا، جو عام طور پر ان لوگوں کو ہوجاتی ہیں
جو جدید تعلیم کے موجودہ اثرات سے مرعوب و متاثر ہوجاتے ہیں:
ایک تویہ کہ جب ہم یہ
بات کہتے ہیں کہ مغرب کا نصاب و نظام تعلیم، اسلام کے حق میں مفید
نہیں، تو یہ لوگ اس پر یہ اشکال کرتے ہیں کہ یہ
علوم وفنون سب کی میراث ہے، اس کو حاصل کرنے میں آخر کیا
برائی ہے؟
اس کا ازالہ یہ ہے کہ بلاشک یہ
علوم و فنون سب کی میراث ہیں اور یہ علوم و فنون درحقیقت
نہ مشرقی ہیں نہ مغربی، اور نہ کسی کی کوئی
خاص جاگیر، اس لئے اہل اسلام ان پر اپنا پورا پورا حق رکھتے ہیں، بلکہ
غور کیا جائے اور تاریخ کا مطالعہ کیا جائے، تو یہ حقیقت
واضح طور پر سامنے آجائے گی کہ ان علوم و فنون کی تخم ریزی
اوران کو پروان چڑھانے کا سہرا اہلِ اسلام کی نمایاں اور عظیم
شخصیات کے سربندھتا ہے۔
لیکن یہاں بحث ان علوم وفنون
کی نہیں ہے بلکہ ان علوم و فنون کی اس خاص وضع و ترتیب
اور اس خاص نظام کی ہے جس کو اسلام دشمن طاقتوں نے اسلام دشمنی میں
یا اپنی بے بصیرتی کی بنیاد پر اس طرح قائم کیا
ہے جو اہلِ اسلام کے قدوقات پر کسی طرح راست نہیں آتا، اسلئے ہمیں
اس نصاب کو ایک خام مال کی حیثیت سے لیکر اپنے
قدوقامت اور اپنے مزاج و مذاق کے موافق تیار کرنا چاہئے۔
دوسری غلط فہمی ان جدید
تعلیم یافتہ حضرات کو یہ ہوجاتی ہے کہ وہ جب بھی
تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کا نام لیتے ہیں، تواس
کے ساتھ اس مغربی نظام اور مغربی تہذیب کو اس کے جزء لاینفک
کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ
یہ ہوتا ہے کہ یا تواس تمدن و تہذیب کو تعلیم کے نام پر
اختیار کرنے کو ضروری خیال کرتے ہیں یا اس تہذیب
و تمدن کے بغیر عصری تعلیم کی تحصیل کو ناممکن
سمجھتے ہیں، حالانکہ تعلیم ایک چیز ہے اور مغربی
تہذیب و تمدن اوراس کا وضع کردہ نظامِ عمل بالکل دوسری چیز ہے،
اور ان دونوں میں کوئی تلازم نہیں۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عصری
تعلیم اور مغربی تہذیب و تمدن میں کوئی تلازم ہے وہ
اس تعلیم کے ساتھ بے حیائی و بے پردگی، فحاشی و عریانی،
ناچ و رنگ، لباس و پوشاک میں انگریزی وضع قطع، کھانے اور پینے
میں غیروں کا طریقہ، بلکہ اس سے آگے احکام شرع کی پامالی
و توہین کو بھی لازم سمجھتے ہیں۔ اور ہم یہ کہنا
چاہتے ہیں کہ تعلیم کے حصول کیلئے اور تعلیم یافتہ
ہونے کیلئے ان امور کی کوئی ضرورت نہیں، یہ اس تعلیم
کا نہیں بلکہ اس نظامِ تعلیم کا اثر ولازمہ ہے جو انگیزی
تہذیب کی کوکھ سے جنم لیا ہے، اس لئے اہل اسلام کو چاہئے کہ وہ اس
تعلیم کو اسلامی تہذیب و تمدن اوراس کے مزاج و انداز کے موافق
ڈھال کر استعمال کریں۔
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7، جلد:
89 ، جمادی الاول، جماد ی
الثانی 1426ہجری مطابق جولائی 2005ء